دوسری جنگ عظیم کا واقعہ ہے کہ ایک صاحب جن کا نام غلام حیدر بابا تھا جو کہ اپنے وقت کا ایک بہترین کاریگر(لوہار) تھا۔ پاکستان اور ہندوستان کی مختلف ریاستوں کیلئے اسلحہ اور توپیں بنانا ان کاکام تھا۔ ایک واقعہ بابا غلام حیدر کی زبانی سنیے۔
غالباً چودہ یا پندرہ سال کی عمر میں میں اپنے والد کی زیرنگرانی کام کررہا تھا۔ میرے والد کے کسی گاہک کے ذمہ غالبا ًچودہ یا پندرہ روپے بنتے تھے۔ والد نے مجھے کہا کہ فلاں صاحب کے ذمہ جو روپے بنتے ہیں لیکر آئو۔ برخوردار وقت ضائع نہ کرنا اور جلدی آنا۔ جب میں اس مقروض کے پاس پہنچا تو میری نیت میں پہلی دفعہ بغاوت نے کروٹ لی اور روپے لیکر میں اپنی دکان کی بجائے ریلوے سٹیشن پر تھا۔ اتفاقاً گاڑی بھی تیار ہی کھڑی تھی۔ میں نے ممبئی کیلئے ڈیڑھ روپے کا ٹکٹ لیا اور گاڑی میں سوار ہوگیا اور گاڑی نے ریلوے سٹیشن کو پیچھے چھوڑنا شروع کردیا۔ بہرحال دوسرے دن عصر کے وقت ایک ریلوے اسٹیشن جو کہ تقریباً اندرون شہر تھا اور وہاں سے شہر کا نظارہ بڑا دلچسپ تھا اور میں بغیر سوچے سمجھے سٹیشن سے باہر تھا۔ بڑا عجیب وغریب نظارہ تھا اور میں (یہ شہر میرٹھ تھا) ان نظاروں سے اس وقت چونکا جب ریل نے سٹیشن چھوڑ دیا اور وسل دی جس سے میں چونکا خیر میں اتفاقاً جس بازار میں تھا وہ لوہے کا بازار تھا‘ لوہے کا سامان اور اوزاروں کی خریدوفروخت ہورہی تھی اور میں دیکھ کر حیران ہورہا تھا۔ حیرانگی کی وجہ خچروں کے نعل تھے جو تقریباً ہر تیسرے چوتھے دکاندار کے سامنے سیمنٹ کے توڑے جوکہ پہلے پٹ سن کے بنے ہوتے تھے پڑے ہوئے تھے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ اتنے زیادہ نعل یہ کیونکر خرید رہے ہیں۔ اوہو یہ تو میرٹھ شہر ہے اور بہت بڑی فوجی چھائونی ہے اور شاید پورے ہندوستان کیلئے خچروں کیلئے نعل شاید میرٹھ ہی سے سپلائی ہوتے ہوں۔ بہرحال میں نے اتنی دیر میں فوراً خریدو فروخت حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ بہت زیادہ منافع ہے۔ اس میں جتنا مرضی مال لائو فوراً تول کر رقم نقد مل جاتی ہے۔ قرض والی بات نہیں ہے۔ خچروں کے نعل سائز میں چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔ جب میں حساب لگا رہا تھا تب خام مال (پرانا لوہا) بھی پوچھ لیا۔ اس بازار سے نکل کر گلیوں میں پھرنے لگا اور میں آخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا ایک خالی دکان کرایہ پر لی اور دکان کھول کر بھٹی بنانی شروع کی اینٹ مٹی سے بھٹی تیار ہوگئی اور پھر دوبارہ اسی بازار میں پہنچا اور سلان‘ ہتھوڑا‘ ہتھوڑیاں‘ سنی‘ پنکھا‘ بھٹی کیلئے خریدا۔ کوئلے اور لوہا بھی خرید لیا اور واپسی پر اپنی دکان میں تھا۔
صبح کیلئے میں نے پوری تیاری کرلی تھی اور صبح کا بے چینی سے انتظار کرنے گا۔ خدا خدا کرکے صبح کی اذان کے ساتھ ہی میں بیدار ہوا‘ نہا دھو کر نماز سے فارغ ہونے کے بعد ناشتہ کرکے بھٹی پر کام شروع کردیا اور میں نعل بنانے میں مصروف ہوگیا۔ عصر کی نماز کے بعد میں بازار میں تھا جب میں نے مال توڑے سے انڈیلا تو دکاندار نے بڑی عجیب نظروں سے میری طرف دیکھا تو میں سہم گیا اور سمجھاکہ شاید میرا مال ناقص ہے لیکن میں نے غلط اندازہ لگایا تھا درحقیقت وہ میری عمر اور میرے مال کی طرف دیکھ کر حیران ہورہا تھا کہ یہ مال اتنا بچہ نہیں بناسکتا جب مجھے انہوں نے اپنی حیرانگی کا سبب بتایا تو میں نے انہیں بتایا کہ میں تو ڈر گیا تھا مگرآپ نے غلط اندازہ لگایا تھا یہ میرا اپنے ہاتھ سے بنایا ہوا مال ہے اس صاحب نے بڑی حیرانگی اور تحسین آمیزنظروں سے مجھے دیکھا اور شاباش دی یہ صاحب خود بھی کاریگر تھے۔ مال تولنے کے بعد رقم میری جیب میں تھی اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے نصیحت کی کہ لالچ میں نہ آنا اور مال اس سے دگنا بھی ہو تو بناتے رہو۔
اس کے بعد میں نے وہیں سے پرانا لوہا خرید کیا اور ایک بوری کوئلے کی خرید کر اپنی دکان پر بھجوا دی اوربقایا رقم میں سے کھانے کیلئے رقم سے کچھ معمولی زیادہ جیب میں رہنے دی اور چونکہ میرا پہلے سے ارادہ تھا کہ عصر کے بعد صرافہ بازار سے ایک تولہ سونا خریدنا ہے اور میں آناً فاناًصرافہ مارکیٹ میں تھا۔ آج کانرخ دیکھا تو اٹھارہ روپے تولہ سونا تھا۔ میں نے ایک تولہ سونا خریدا اور سونے کو جیب میں داخل کرادیا۔ واہ حیدر جی! مزے ہی مزے‘ میں بڑا خوش خوش اپنے اڈے پر پہنچا اور شام کی نماز کے بعد میں نے عشاءکی نماز تک آرام کرنا چاہا۔ عشاءسے فارغ ہوکر میں فوراً سوگیا۔
جب دوسرے دن کا آغاز اور اختتام اسی ترتیب سے ہوا اور اسی طرح یہ کام روز کا معمول بن گیا اور میں ہر روز ایک تولہ سونا خریدتا اور داخل جیب کرادیتا۔ اسی طرح ایک دن ایک معمر صاحب تشریف لائے۔ علیک سلیک کے بعد میں نے بیٹھنے کا کہا تو وہ بیٹھ گئے اور میں اپنے کام میںمشغول رہا اور باتیں بھی کرتا جاتا تھا۔
پھر ایک دن یہ صاحب جنہیں میں چاچا علیم کہتا تھا اپنے مقصد کی طرف آہی گئے۔ مجھے بڑی حیرانگی ہوئی‘ مگر میں نے بات سنی ان سنی کردی مگر وہ حضرت بھی اپنی بات کہنے سے باز نہ آئے اور سونا بنانے کی ترکیب کا ذکر بڑے جوش سے کرتے جب میں سنی ان سنی سے مجبور ہوکر میں نے چاچاعلیم کو کہا کہ ٹھیک ہے مجھے سوچنے کاموقع دیں اس طرح کچھ دنوں کیلئے میں چاچا بے فکر ہوگیا۔ کچھ تو سکون سے گزرے اور پھر حضرت کی وہی پرانی رٹ آخر تنگ آکر میں نے ہامی بھرلی (سونا بنانے کی) وہ صاحب بڑے خوش ہوگئے میری آئو بھگت شروع ہوگئی مگر دوسرے دن صبح صبح ہی آن حاضر ہوگئے اور وہی پرانی بات کہنے (سونا بنانے کی) لگے میں نے جواباً کہا کہ بڑے میاں ابھی بھٹی میں سونا بنانے میں ٹائم ہے لہٰذا ذرا صبر سے کام لیں۔ مگر وہ باز آنے والے نہ تھے بار بار تھوڑی تھوڑی دیر بعد پوچھتے میں کہتا ابھی تھوڑا وقت ہے بہرحال اسی طرح عصر کی نماز کے بعد میںمال لیکر جب بازار جانے کیلئے اٹھا توپھر وہی سوال میں نے کہا کہ بس بھٹی تیار ہوگئی ہے واپسی پر ہم سونا بنانے کا کام شروع کردیں گے جب میں واپس آیا تو بھٹی میں اپنی جیب سے ٹکرا سونے کا نکال کر اوپر بھٹی میں ڈال دیا اور سیض کے ساتھ الٹ پلٹ کر ٹکڑا باہر نکالا اور جب اس نے ٹھنڈا ہونے پر کسوٹی پر لگایا تو وہ تو (پاسہ) سونا تھا وہ صاحب بڑی حیرانگی سے مجھے دیکھتے رہے اور بار بار کسوٹی پرلگاتے رہے علیم چاچا کا رنگ لال سرخ ہوگیا تھا لیکن لطف کی بات تو اس وقت ہوئی جب بڑے میاں کو اصل حقیقت بتائی گئی اور وہ یکدم بجھ سے گئے اور ساری خوشی کافور ہوگئی۔
یہ تو تمام قارئین کے علم میں آچکا ہے کہ وہ سونا کہاں سے آیا اور کیسے آیا؟ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔ سونا بنانا آسان ترین علم اور عمل ہے مگر پسینہ بہا کر اور اپنے دست بازو سے۔ مگر لالچ سے بچنا لازمی جز ہے کامیابی کا۔
٭٭٭٭٭٭٭
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں